Tuesday, September 5, 2017

کردستان کی خود مختاری اور نیا مڈل ایسٹ



کردستان کی خود مختاری اور نیا مڈل ایسٹ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا عملی آغاز 
 
تزئین حسن 

اطلاعات کے مطابق رواں سال ستمبر کی25 تاریخ کو شمالی عراق کے شہر اربیل میں قائم کردہ کردستان ریجنل گورنمنٹ عراق سے علیحدگی اختیار کرنے کےلئے ریفرنڈم کا انعقاد کر رہی ہے۔ نئے ورلڈ آرڈر کے تحت عراق کو شیعہ، سنی اور کرد تین حصّوں میں تقسیم کرنے کے نئے مڈل ایسٹ کا منصوبہ کوئی نیا نہیں۔ اس کی بازگشت 

2003ءمیں عراق پر امریکی حملے کے بعد سے اکثر سنائی دیتی رہتی ہے۔ کوئی ایک دہائی قبل ایک ریفرنڈم میں99.8 فیصد کرد عراق سے علیحدگی کے حق میں رائے دے چکے ہیں۔ یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے مگر امید یہی ہے کہ یہ ریفرنڈم عراق کی تقسیم کے حق میں منظور ہو جائے گا اور کردوںکو جو فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی stateless یعنی بے ریاست قوم ہیں ایک وطن مل جائے گا جوکرد قوم کی دیرینہ آرزوو ¿ں کی تکمیل ہوگی۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر کردستان خود مختار ریاست کے طور پر وجود میں آ جاتا ہے تو یہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والی دسویں بڑی ریاست ہو گی۔ کردستان ریجنل گورنمنٹ اس وقت بھی امریکا اور چین کے علاوہ متعدد ممالک کو تیل فراہم کر رہی ہے۔ 

کردستان ریجنل گورنمنٹ پہلی خلیجی جنگ کے دو سال بعد امریکا ہی کے تعاون سے وجود میں آئی اور اسکے بعد سے اپنا جمہوری وجود برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ فی الوقت اس کی آئینی حیثیت عراق کے ایک فیڈرل ریجن کے طور پر ہے۔ عراقی آئین کے مطابق فی الوقت فیڈرل ریجن داخلی معاملات میں آزاد ہوتے ہیں جبکہ بغداد کی مرکزی حکومت بین الاقوامی معاملات کی ذ مہ دار ہے۔

کینیڈا کے ایک جیو پولیٹیکل تھنک ٹینک ’گلوبل ریسرچ‘ کا کہنا ہے کہ  امریکی اور شامی کردوں کے مابین مذاکرات میں شام میں کرد ریاست کی سرحدوں پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اگر یہ اطلاعات صحیح ہیں تو عراق کے ساتھ امریکا کے شام کو تقسیم کرنے کے منصوبہ کی رپورٹس کو بھی تقویت ملتی ہے۔’ گلوبل ریسرچ‘ کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق امریکا پہلے ہی شام اور عراق میں ایک گریٹر کردستان کی سرحدوں کا تعین کر چکا ہے. 
ترک صحافی اور تجزیہ نگار مہمت علی گلر کا کہنا ہے کہ امریکا گریٹر کردستان کے منصوبے پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ترکی اخبار سپوتنک کو دئیے جانے والے انٹرویو میں ان کاکہنا ہے کہ کرد ملیشیا کو شام میں دا عش کے خلاف استعمال کرنے کا مقصد یہ ہی تھا کہ شام میں انھیں مستحکم کرکے کرد ریاست قائم کی جائے۔ امریکا کردوں کو دا عش کے خلاف سب سے موثر پارٹنر قراردیتاہے۔ امریکا نہ صرف کرد رضاکاروں کو ٹریننگ فراہم کر رہا ہے بلکہ بھاری پیمانے پر عسکری امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔ گلر کے مطابق پینٹاگون کرد ملیشیا کو با قاعدہ ایک فوج کی حیثیت دلا رہا ہے اور خطے کے امن کےلئے ضروری ہے کہ امریکی بالادستی کو روکنے کےلئے انقرہ اور دمشق ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ 
ایک اندازے کے مطابق کرد قوم کی آبادی تین سے ساڑھے چار کروڑ ہے، وہ صرف عراق ہی نہیں ترکی، شام، آرمینیا، ایران اور وسطی ایشیا کی بعض ریاستوں میں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکا میں بھی مقیم ہیں۔ یورپ میں آباد 15 لاکھ کردوں میں سے نصف جرمنی میں ہیں۔ کسی بھی ایک خطے میں کرد ریاست کا قیام دوسرے خطوں میں مقیم کردوں پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے.
بین الاقوامی مبصرین کے نزدیک عراق کی صورت حال اتنی غیر یقینی ہے کہ اس ریفرنڈم کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ماضی قریب میں برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی اور اس سے پہلے کینیڈا میںکیوبیک نامی علاقے کی علیحدگی کےلئے ریفرنڈم ناکام ہو چکے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ علیحدگی کےلئے منعقد ہونے والے سارے ریفرنڈم ناکام ہی ہوتے ہیں۔ نو برس قبل کوسوو کی سربیا سے علیحدگی کا ریفرنڈم منظور ہو چکا ہے،آج کوسووو علیحدہ مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ یاد رہے کہ عراق کینیڈا یا برطانیہ نہیں عراق ہے جہاں کی آبادی 2003ءسے دنیا کے بدترین حالات سے گزر رہی ہے۔ 

سیکر نامی ایک امریکی جیو ملٹری تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ کرد واحد گروہ ہے جو امریکا کو گراو ¿نڈ پر میسر ہے، امریکا اسےضرور استعمال کرے گا۔ اس کا کہنا ہے :”مجھے یقین ہے کہ امریکا شام کو تقسیم کرے گا کیونکہ جس چیز کو یہ کنٹرول نہیں کر سکتے اسے توڑ دیتے ہیں“۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کردستان کے ذریعہ شام کو کمزور کرکے ترکی اور ایران پر دباو ¿ کو بڑھانا چاہتا ہے۔ روس اس منصوبے کے خلاف ہے. اسکے علاوہ ایران اور ترکی بھی اپنے داخلی کرد بغاوتوں کے ڈر سے اس منصوبے کے خلاف ہیں.
سوال یہ ہے کہ کیا کردستان کی علیحدہ ریاست کے مقامی خواب کی تکمیل کے بعد اس علاقے کے حالت میں کچھ بہتری آنے کی امید ہے اور مقامی آبادی اسکے بعد چین کا سانس لے سکے گی؟ یا نہیں، خطے کے دوسرے فریقوں کے علاوہ بین الاقوامی سیاست کے کھلاڑی اس متوقع تبدیلی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور خطے کے سیاسی منظر نامے میں اس سے کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟ خود عراق، ترکی، شام میں موجود دوسری سیاسی اور عسکری قوتوں کے نزدیک آزاد اور خود مختار کردستان کے حوالے سے کیا خدشات پائے جاتے ہیں؟
2014ء میں دا عش کے شام کے علاقے پر قبضے کے بعد کردستان ریجنل گورنمنٹ نے تیل کی دولت سے مالا مال کرکوک کے علاقے پر کنٹرول حاصل کرکے اسے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ یہاںکردوں کے علاوہ بڑی تعداد میں عرب اور ترکمان بھی آباد ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدام کے زمانے میں آبادی کے توازن کو حکومت کے حق میں کرنے کےلئے یہاں عربوں کو ایک منصوبہ کے تحت بسایا گیا جس کے نتیجے میں90 ءکے عشرے میں یہ عرب اکثریتی علاقہ ہو گیا ۔ حالیہ برسوں میں عراقی عرب خود بھی شمال سے علاقے کی نسبتاً پر امن صورت حال کی وجہ سے ادھر کا رخ کرتے رہے ہیں۔
صدام حسینکے بعد جلا وطن کرد بڑی تعداد میں علاقے میں واپس آئے اور عربوں نے علاقہ چھوڑدیا مگر آبادی کے حالیہ تناسب کے بارے میں کچھ کہنا مشکل  ہے۔ اس علاقے کو بارود سے بھری کان بھی کہا جاتا ہے جہاں کسی بھی وقت خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ کرد ستان کی علیحدگی کے بعد یہاں رہنے والے عربوں میں بے چینی لازمی ہے جو حالات میں خرابی کا با عث بن سکتی ہے۔ عراق میں امریکی حملے کے بعد دا عش جیسی انتہا پسند قوتوں کے طاقتور ہونے کے بعد کسی بھی علاقائی تنازع میں ان کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بے چینی علاقائی عربوں کو بغاوت پر آمادہ کر سکتی ہے یا داعش بذات خود اس تنازعہ میں کود سکتی ہے جو مقامی آبادی کے مسائل میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ امن امان کو تباہ کرنے میں بھی یقیناً اپنا حصہ ڈالے گی۔
کردستان ریجنل حکومت جمہوری رویوں کے فقدان اور کرپشن کے باوجود باقی عراق کے مقابلے میں بہت بہتر کام کر رہی ہے۔ بین الاقوامی صحافی مائیکل جے ٹوٹن نےحالیہ برسوں میں متعدد بار علاقے کا دورہ کیا اور کردستان کو امریکی ریاست کینساس سے زیادہ محفوظ پایا۔ ان کا کہنا ہے:”اگر آپ بغداد یا موصل سے آ رہے ہیں تو یہ سویٹزرلینڈ جیسا ہے“۔
کردستان انتظامی لحاظ سے چار حصوں میں تقسیم ہے۔ ان میں سے دوھک، اربیل، اور سلیمانیہ باقی عراق کے بر عکس صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد سے مسلح تنازعات سے پاک ہیں مگر کرکوک بھر حال اب بھی جنگ زدہ خطہ ہے۔ یہاں تنہا سفر کرنا خطرناک ہے۔ موت، اغوا، کے علاوہ آپ کی کار کو کسی دھماکے سے اڑائے جانے کا بھی خطرہ ہے۔ بعض اوقات کرد حکوت کی سرکاری پناہ میں سفر کرنے والے بین الاقوامی مبصرین کو بھی کار بیم دھماکوں سے اڑا دینے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ امن عامہ کی ابتر صورتحال کے باوجود تیل کی دولت کے سبب کرد حکومت کے ساتھ ساتھ کرکوک بھی بغداد کی وش لسٹ میں بھی شامل ہے۔ اس بات کا امکان بھی بہرحال موجود ہے کہ بغداد میں موجود امریکی کٹھ پتلی حکومت کو اندرونی مسائل سے فرصت ملے تو وہ بھی کرکوک حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ بغداد حکومت کی یہ خواہش پوری ہوناآسان نہیں۔ ماضی میں صدام حسین کی طاقتور فوج کو کردستان میں شدید مشکلات کا سامنا رہا تھا۔کرکوک کی زبردستی خود مختار کردستان میں شرکت بھی مسائل کھڑی کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔
اس معاملے کا ایک اہم فریق ترکی بھی ہے جس کے کردار کو عراق اور شام کی علاقائی سیاست کے تناظر میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کردستان کی علیحدگی پسند جدوجہد کو بغدادکی کٹھ پتلی حکومت سے زیادہ خطرہ بلا شبہ ترکی ہے۔ ترکی عرصہ سے ترک علاقوں میں موجود کرد علیحدگی پسند تنظیم PKK کی شورش سے نمٹ رہا ہے۔ PKK جسے مارکسسٹ لیننسٹ ورکرز پارٹی بھی کہا جاتا ہے، اس وقت شام میں داعش کے خلاف سرگرم ہے اور امریکا سے عسکری امداد بھی وصول کرتی رہی ہے جس پر ترکی کو داعش کے خلاف کولیشن کا حصہ ہوتے ہوئے بھی شدید تحفظات ہیں۔ترکی نے کرکوک کی کردستان میں شمولیت پر اپنے تحفظات ظاہر کئے۔ رواں سال جون میں ایردوان کے نمائندہ نے شمالی عرا ق کی خود مختاری کے ریفرنڈم پر گہرے صدمے کا اظہار کیا۔ صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ شمالی عراق کی آزادی خطے کی سالمیت کےلئے خطرہ ہو گی۔ یاد رہے کہ ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی کے باوجود ایردوان اور کردستان کے صدر مسعود برزانی کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ ترکی کا کہنا ہے کہ کرکوک عراقی آئین کے مطابق عراقی شہر ہے اور کردستان کی حدود سے باہر ہے۔ ترکی بجا طور پر خود مختار کردستان سے خطرہ محسوس کر رہا ہے کیونکہ یہ اس کے ہاں بھی کرد بغاوت میں شدت پیدا کر نے کا با عث بن سکتا ہے۔

امریکا کا کردار
کردوں نے 2003ءکے امریکی حملے میں صدام کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا تھا۔ امریکی قبضے کے بعد بننے والی ’عراقی گورننگ کونسل‘ میں بھی کرد شیعوں کے ساتھ شامل رہے۔ عراقی کردوں کی تنظیم PKK فی الوقت امریکا کی سب سے زیادہ مستحکم اور قابل اعتماد اتحادی جانی جاتی ہیں۔ دا عش کے خلاف کاروائیوں میں اس نے اپنی عسکری صلاحیتوں کو خوب منوایا۔ امریکا کےلئے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ PKK ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا ’حزب اللہ‘ سے فاصلہ رکھے ہوئے ہے اور مستقبل میں بھی ان دونوں عسکری تنظیموں کے قریب آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے علاوہ کرد روس کے بھی قریب نہیں ہیں۔وہ دا عش سے یا سلفی اسلام سے بھی دور ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی بظاہر آزاد کردستان کی مخالفت کر رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک آزاد کردستان کے مقابلے میں امریکا کا حمایت یافتہ کردستان زیادہ مستحکم ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کردستان امریکا کے ایک سیٹلایٹ ملک کے طور پر ابھرتا ہے یا ایک واقعی آزاد ریاست کے طور پر۔خطہ کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اسے شام اور عراق کی بیلکنایزیشن(Balkanization) کہا جا رہا ہے جس کے منصوبہ سازوں کے یقیناً اپنے اپنے خواب ہوںگے اور وہ اس خودمختاری کے فوائد سمیٹنے کےلئے مستعد ہوںگے۔
یاد رہے کہ جس نئے مڈل ایسٹ کی تعمیر کا اعلان اس وقت کی امریکی سیکریرٹری آف اسٹیٹ کونڈو لیزا رائس نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں( 2006 ءمیں لبنان پر اسرائیلی حملے کے دوران) کیا اس کےلئے مشرق وسطیٰ میں انتشار اور شورشیں پھیلانا بہت ضروری تھا۔ افغانستان اور عراق پر امریکی حملہ، عراق کے انتظامی اور شہری انفراسٹرکچر اور اداروں کی تباہی، دنیا کے دوسرے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک میں غربت، بدحالی اور بھوک کے علاوہ مذہبی مقامات پر حملوں کے ذریعہ فرقہ واریت کے پھیلاو ¿، عراق کے گلی کوچوں کے علاوہ ابو غریب جیسے مقامات میں عراقیوں کی ذلت نے جس انتہا پسندی کو جنم دیا ، اس کے نتائج یہی نکلناتھے بلکہ اسرائیل میں مقیم صحافی جوناتھن کوک کے بقول یہ سب نتائج حملے کے منصوبہ سازوں کے پلان کے عین مطابق ہیں۔
اگرگریٹر کردستان وجود میں آ جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے امریکا کی ایک سیٹیلائٹ سٹیٹ ہوگا جو خود اپنی حفاظت کےلئے امریکی فضائیہ کا محتاج ہوگا، امریکا اور دوسری بالادست طاقتوں کی حکمت عملی نئی نہیں۔ عراق کو سلطنت عثمانیہ سے الگ کرکے جوکٹھ پتلی حکومت آج سے پورے سو سال پہلے بنائی گئی تھی، وہ بھی برطانیہ کی اسی طرح محتاج تھی۔ نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق میں جو حکومتیں بنوائی گئیں، ان کا بھی یہی حال ہے۔ ایسی حکومتوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک کے اصل سیاسی سٹیک ہولڈرز ایسی حکومت کے خلاف بغاوتیں کرتے رہتے ہیں، ملک میں خانہ جنگی جاری رہتی ہے، شاید منصوبہ سازوںکی منصوبہ بندی کا مقصد یہی ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment