https://www.express.pk/story/1073317/464/
Media Myths
The Media Myths is a journalism platform that focuses on the background, analysis, investigative reporting, and the news that escape the radar of the mainstream media.
Friday, April 27, 2018
Wednesday, November 29, 2017
A family in Yemen by Washington Post
Monday, November 27, 2017
LUMS graduate appointed as faculty member of Stanford University
Monday, November 20, 2017
White Racists are far more active on social media than ISIS, says a George Washington Study
The most popular theme among white nationalists on Twitter was the concept of “white genocide,” the notion that the “white race” is directly endangered by the increasing diversity of society, indicates the extensive study. Tazeen Hasan highlights the significant aspects of the report.
This study examines and compares the use of Twitter by white nationalists, Nazi sympathizers, and ISIS supporters respectively, providing some preliminary comparisons of how each movement uses the platform.
1. Major American white nationalist movements on Twitter saw an outstanding rise of following in last four years, an increase of about 600%. The increase is driven by organized activism by white racist flooding and trolling social media communities with hate contents.
2.White nationalists and Nazis had substantially higher follower counts than ISIS supporters. (Notebaly, the report does not mention any ISIS statistics or hashtags)
3. Followers of white nationalists on Twitter were heavily invested in Donald Trump’s presidential campaign.
4. White nationalism is highly factionalized and includes a number of competing movements. On Twitter, accounts focused on Nazi sympathies were more prevalent than any other white nationalist movement, and pro-Nazi propaganda was tweeted more often than any other content.
5. Within the broader community of white nationalists, organized recruitment, proselytization, and social media activism were primarily carried out with a Nazi slant. Recruitment focused on the theme of white genocide and used terminology drawn from popular entertainment.
7. Small groups of users tweeting in concert at high volumes can amplify their effect, causing hashtags and content to trend in numbers significant enough to prompt mainstream media coverage.
Tuesday, October 17, 2017
Malta car bomb kills Panama Papers journalist
The journalist who led the Panama Papersinvestigation into corruption in Malta was killed on Monday in a car bomb near her home.
Daphne Caruana Galizia died on Monday afternoon when her car, a Peugeot 108, was destroyed by a powerful explosive device which blew the vehicle into several pieces and threw the debris into a nearby field.
A blogger whose posts often attracted more readers than the combined circulation of the country’s newspapers, Caruana Galizia was recently described by the Politico website as a “one-woman WikiLeaks”. Her blogs were a thorn in the side of both the establishment and underworld figures that hold sway in Europe’s smallest member state.
Her most recent revelations pointed the finger at Malta’s prime minister, Joseph Muscat, and two of his closest aides, connecting offshore companies linked to the three men with the sale of Maltese passports and payments from the government of Azerbaijan.
Wednesday, October 11, 2017
RCMP officers screened Quebec border crossers on religion and values, questionnaire shows
An RCMP guide for screening asylum seekers includes several questions that appear to target Muslims. When asked about the questionnaire, a spokesperson for Public Safety Minister Ralph Goodale told the Star the RCMP has suspended its use.
RCMP officers have been screening Muslim refugee claimants entering from the U.S. at Quebec’s Roxham Rd. crossing, asking how they feel about women who do not wear the hijab, how many times they pray, and their opinion about the Taliban and the Islamic State, a questionnaire obtained by the Star shows.
The 41 questions appear to specifically target Muslims, as no other religious practices are mentioned, nor terrorist groups with non-Muslim members.
Saturday, September 16, 2017
Friday, September 8, 2017
Thursday, September 7, 2017
Hussain Haqqani speaks like Indian Envoy
Tuesday, September 5, 2017
کردستان کی خود مختاری اور نیا مڈل ایسٹ
اطلاعات کے مطابق رواں سال ستمبر کی25 تاریخ کو شمالی عراق کے شہر اربیل میں قائم کردہ کردستان ریجنل گورنمنٹ عراق سے علیحدگی اختیار کرنے کےلئے ریفرنڈم کا انعقاد کر رہی ہے۔ نئے ورلڈ آرڈر کے تحت عراق کو شیعہ، سنی اور کرد تین حصّوں میں تقسیم کرنے کے نئے مڈل ایسٹ کا منصوبہ کوئی نیا نہیں۔ اس کی بازگشت
ترک صحافی اور تجزیہ نگار مہمت علی گلر کا کہنا ہے کہ امریکا گریٹر کردستان کے منصوبے پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ترکی اخبار سپوتنک کو دئیے جانے والے انٹرویو میں ان کاکہنا ہے کہ کرد ملیشیا کو شام میں دا عش کے خلاف استعمال کرنے کا مقصد یہ ہی تھا کہ شام میں انھیں مستحکم کرکے کرد ریاست قائم کی جائے۔ امریکا کردوں کو دا عش کے خلاف سب سے موثر پارٹنر قراردیتاہے۔ امریکا نہ صرف کرد رضاکاروں کو ٹریننگ فراہم کر رہا ہے بلکہ بھاری پیمانے پر عسکری امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔ گلر کے مطابق پینٹاگون کرد ملیشیا کو با قاعدہ ایک فوج کی حیثیت دلا رہا ہے اور خطے کے امن کےلئے ضروری ہے کہ امریکی بالادستی کو روکنے کےلئے انقرہ اور دمشق ایک دوسرے کے قریب آئیں۔
سیکر نامی ایک امریکی جیو ملٹری تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ کرد واحد گروہ ہے جو امریکا کو گراو ¿نڈ پر میسر ہے، امریکا اسےضرور استعمال کرے گا۔ اس کا کہنا ہے :”مجھے یقین ہے کہ امریکا شام کو تقسیم کرے گا کیونکہ جس چیز کو یہ کنٹرول نہیں کر سکتے اسے توڑ دیتے ہیں“۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کردستان کے ذریعہ شام کو کمزور کرکے ترکی اور ایران پر دباو ¿ کو بڑھانا چاہتا ہے۔ روس اس منصوبے کے خلاف ہے. اسکے علاوہ ایران اور ترکی بھی اپنے داخلی کرد بغاوتوں کے ڈر سے اس منصوبے کے خلاف ہیں.
سوال یہ ہے کہ کیا کردستان کی علیحدہ ریاست کے مقامی خواب کی تکمیل کے بعد اس علاقے کے حالت میں کچھ بہتری آنے کی امید ہے اور مقامی آبادی اسکے بعد چین کا سانس لے سکے گی؟ یا نہیں، خطے کے دوسرے فریقوں کے علاوہ بین الاقوامی سیاست کے کھلاڑی اس متوقع تبدیلی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور خطے کے سیاسی منظر نامے میں اس سے کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟ خود عراق، ترکی، شام میں موجود دوسری سیاسی اور عسکری قوتوں کے نزدیک آزاد اور خود مختار کردستان کے حوالے سے کیا خدشات پائے جاتے ہیں؟
2014ء میں دا عش کے شام کے علاقے پر قبضے کے بعد کردستان ریجنل گورنمنٹ نے تیل کی دولت سے مالا مال کرکوک کے علاقے پر کنٹرول حاصل کرکے اسے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ یہاںکردوں کے علاوہ بڑی تعداد میں عرب اور ترکمان بھی آباد ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدام کے زمانے میں آبادی کے توازن کو حکومت کے حق میں کرنے کےلئے یہاں عربوں کو ایک منصوبہ کے تحت بسایا گیا جس کے نتیجے میں90 ءکے عشرے میں یہ عرب اکثریتی علاقہ ہو گیا ۔ حالیہ برسوں میں عراقی عرب خود بھی شمال سے علاقے کی نسبتاً پر امن صورت حال کی وجہ سے ادھر کا رخ کرتے رہے ہیں۔
صدام حسینکے بعد جلا وطن کرد بڑی تعداد میں علاقے میں واپس آئے اور عربوں نے علاقہ چھوڑدیا مگر آبادی کے حالیہ تناسب کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس علاقے کو بارود سے بھری کان بھی کہا جاتا ہے جہاں کسی بھی وقت خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ کرد ستان کی علیحدگی کے بعد یہاں رہنے والے عربوں میں بے چینی لازمی ہے جو حالات میں خرابی کا با عث بن سکتی ہے۔ عراق میں امریکی حملے کے بعد دا عش جیسی انتہا پسند قوتوں کے طاقتور ہونے کے بعد کسی بھی علاقائی تنازع میں ان کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بے چینی علاقائی عربوں کو بغاوت پر آمادہ کر سکتی ہے یا داعش بذات خود اس تنازعہ میں کود سکتی ہے جو مقامی آبادی کے مسائل میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ امن امان کو تباہ کرنے میں بھی یقیناً اپنا حصہ ڈالے گی۔
کردستان ریجنل حکومت جمہوری رویوں کے فقدان اور کرپشن کے باوجود باقی عراق کے مقابلے میں بہت بہتر کام کر رہی ہے۔ بین الاقوامی صحافی مائیکل جے ٹوٹن نےحالیہ برسوں میں متعدد بار علاقے کا دورہ کیا اور کردستان کو امریکی ریاست کینساس سے زیادہ محفوظ پایا۔ ان کا کہنا ہے:”اگر آپ بغداد یا موصل سے آ رہے ہیں تو یہ سویٹزرلینڈ جیسا ہے“۔
کردستان انتظامی لحاظ سے چار حصوں میں تقسیم ہے۔ ان میں سے دوھک، اربیل، اور سلیمانیہ باقی عراق کے بر عکس صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد سے مسلح تنازعات سے پاک ہیں مگر کرکوک بھر حال اب بھی جنگ زدہ خطہ ہے۔ یہاں تنہا سفر کرنا خطرناک ہے۔ موت، اغوا، کے علاوہ آپ کی کار کو کسی دھماکے سے اڑائے جانے کا بھی خطرہ ہے۔ بعض اوقات کرد حکوت کی سرکاری پناہ میں سفر کرنے والے بین الاقوامی مبصرین کو بھی کار بیم دھماکوں سے اڑا دینے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ امن عامہ کی ابتر صورتحال کے باوجود تیل کی دولت کے سبب کرد حکومت کے ساتھ ساتھ کرکوک بھی بغداد کی وش لسٹ میں بھی شامل ہے۔ اس بات کا امکان بھی بہرحال موجود ہے کہ بغداد میں موجود امریکی کٹھ پتلی حکومت کو اندرونی مسائل سے فرصت ملے تو وہ بھی کرکوک حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ بغداد حکومت کی یہ خواہش پوری ہوناآسان نہیں۔ ماضی میں صدام حسین کی طاقتور فوج کو کردستان میں شدید مشکلات کا سامنا رہا تھا۔کرکوک کی زبردستی خود مختار کردستان میں شرکت بھی مسائل کھڑی کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔
اس معاملے کا ایک اہم فریق ترکی بھی ہے جس کے کردار کو عراق اور شام کی علاقائی سیاست کے تناظر میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کردستان کی علیحدگی پسند جدوجہد کو بغدادکی کٹھ پتلی حکومت سے زیادہ خطرہ بلا شبہ ترکی ہے۔ ترکی عرصہ سے ترک علاقوں میں موجود کرد علیحدگی پسند تنظیم PKK کی شورش سے نمٹ رہا ہے۔ PKK جسے مارکسسٹ لیننسٹ ورکرز پارٹی بھی کہا جاتا ہے، اس وقت شام میں داعش کے خلاف سرگرم ہے اور امریکا سے عسکری امداد بھی وصول کرتی رہی ہے جس پر ترکی کو داعش کے خلاف کولیشن کا حصہ ہوتے ہوئے بھی شدید تحفظات ہیں۔ترکی نے کرکوک کی کردستان میں شمولیت پر اپنے تحفظات ظاہر کئے۔ رواں سال جون میں ایردوان کے نمائندہ نے شمالی عرا ق کی خود مختاری کے ریفرنڈم پر گہرے صدمے کا اظہار کیا۔ صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ شمالی عراق کی آزادی خطے کی سالمیت کےلئے خطرہ ہو گی۔ یاد رہے کہ ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی کے باوجود ایردوان اور کردستان کے صدر مسعود برزانی کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ ترکی کا کہنا ہے کہ کرکوک عراقی آئین کے مطابق عراقی شہر ہے اور کردستان کی حدود سے باہر ہے۔ ترکی بجا طور پر خود مختار کردستان سے خطرہ محسوس کر رہا ہے کیونکہ یہ اس کے ہاں بھی کرد بغاوت میں شدت پیدا کر نے کا با عث بن سکتا ہے۔
امریکا کا کردار
کردوں نے 2003ءکے امریکی حملے میں صدام کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا تھا۔ امریکی قبضے کے بعد بننے والی ’عراقی گورننگ کونسل‘ میں بھی کرد شیعوں کے ساتھ شامل رہے۔ عراقی کردوں کی تنظیم PKK فی الوقت امریکا کی سب سے زیادہ مستحکم اور قابل اعتماد اتحادی جانی جاتی ہیں۔ دا عش کے خلاف کاروائیوں میں اس نے اپنی عسکری صلاحیتوں کو خوب منوایا۔ امریکا کےلئے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ PKK ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا ’حزب اللہ‘ سے فاصلہ رکھے ہوئے ہے اور مستقبل میں بھی ان دونوں عسکری تنظیموں کے قریب آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے علاوہ کرد روس کے بھی قریب نہیں ہیں۔وہ دا عش سے یا سلفی اسلام سے بھی دور ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی بظاہر آزاد کردستان کی مخالفت کر رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک آزاد کردستان کے مقابلے میں امریکا کا حمایت یافتہ کردستان زیادہ مستحکم ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کردستان امریکا کے ایک سیٹلایٹ ملک کے طور پر ابھرتا ہے یا ایک واقعی آزاد ریاست کے طور پر۔خطہ کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اسے شام اور عراق کی بیلکنایزیشن(Balkanization) کہا جا رہا ہے جس کے منصوبہ سازوں کے یقیناً اپنے اپنے خواب ہوںگے اور وہ اس خودمختاری کے فوائد سمیٹنے کےلئے مستعد ہوںگے۔
یاد رہے کہ جس نئے مڈل ایسٹ کی تعمیر کا اعلان اس وقت کی امریکی سیکریرٹری آف اسٹیٹ کونڈو لیزا رائس نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں( 2006 ءمیں لبنان پر اسرائیلی حملے کے دوران) کیا اس کےلئے مشرق وسطیٰ میں انتشار اور شورشیں پھیلانا بہت ضروری تھا۔ افغانستان اور عراق پر امریکی حملہ، عراق کے انتظامی اور شہری انفراسٹرکچر اور اداروں کی تباہی، دنیا کے دوسرے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک میں غربت، بدحالی اور بھوک کے علاوہ مذہبی مقامات پر حملوں کے ذریعہ فرقہ واریت کے پھیلاو ¿، عراق کے گلی کوچوں کے علاوہ ابو غریب جیسے مقامات میں عراقیوں کی ذلت نے جس انتہا پسندی کو جنم دیا ، اس کے نتائج یہی نکلناتھے بلکہ اسرائیل میں مقیم صحافی جوناتھن کوک کے بقول یہ سب نتائج حملے کے منصوبہ سازوں کے پلان کے عین مطابق ہیں۔
اگرگریٹر کردستان وجود میں آ جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے امریکا کی ایک سیٹیلائٹ سٹیٹ ہوگا جو خود اپنی حفاظت کےلئے امریکی فضائیہ کا محتاج ہوگا، امریکا اور دوسری بالادست طاقتوں کی حکمت عملی نئی نہیں۔ عراق کو سلطنت عثمانیہ سے الگ کرکے جوکٹھ پتلی حکومت آج سے پورے سو سال پہلے بنائی گئی تھی، وہ بھی برطانیہ کی اسی طرح محتاج تھی۔ نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق میں جو حکومتیں بنوائی گئیں، ان کا بھی یہی حال ہے۔ ایسی حکومتوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک کے اصل سیاسی سٹیک ہولڈرز ایسی حکومت کے خلاف بغاوتیں کرتے رہتے ہیں، ملک میں خانہ جنگی جاری رہتی ہے، شاید منصوبہ سازوںکی منصوبہ بندی کا مقصد یہی ہوتا ہے۔
Times Of India: Prayer ground flooded, Sikhs offer gurdwara to Muslims for Eid namaaz
They soon realized that there was no way they would be able to do their naamaz there.
Upset and anxious as time went by, they were wondering what to do when some Sikhs in the area came to know of the dilemma. After a few calls to each other, they knew what they had to do for their Muslim brethren. They offered their gurdwara some distance away to the Muslims.
Read Full News at TOI website.
Middle East Monitor: Qatar Opened New Cargo line to Turkey, Pakistan, India and Iran
Qatar Skyline Creative Common License author UNCTAD |
Qatar has opened a land and sea cargo line with Iran and Turkey. The line is expected to reduce cargo shipping costs by 80%.
Read Full Article in the Middle East Monitor
Monday, July 17, 2017
Wednesday, July 12, 2017
BBC's Mark Tully Speaks about the Fall of Dhaka and Pakistan Army
Sir William Mark Tully, KBE (born 24 October 1935) is the former Bureau Chief of BBC, New Delhi. He worked with BBC for a period of 30 years before resigning in July 1994.[3] He held the position of Chief of Bureau, BBC, Delhi for 20 years.[4] He has received awards and he has also written books. Tully is also a member of The Oriental Club.